بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


Tuesday, 5 June 2018

جہالت یا ماڈرن ازم..... 🤔🤔🤔🤔

جہالت یا ماڈرن ازم..... 🤔🤔🤔🤔

وہ سر سے لیکر پاؤں تک پردے میں ملبوس مارکیٹ جانے کے لئے تیار تھی ،فلیٹ سے نکل کر لاک لگایا اور چابی پڑوسن کے حوالے کر دی تاکہ دیر کی صورت میں اس کے بچے آسانی سے گھر کے اندر آ سکیں۔  پڑوسن نے چابی تھامتے ہوئے معنی خیز نظروں سے اسے دیکھا اور ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اندر کی طرف چلی گئی،
وہ افسوس سے سر جھٹکتی سیڑھیاں اترتے نیچے آ رہی تھی کہ پڑوسن کے شوہر کرامت صاحب اوپر کی طرف آتے دکھائی دیئے۔ اس پہ نگاہ پڑتے ہی کرامت صاحب کی آنکھوں میں خباثت چمکی ۔کچھ دور سے ہی بآواز بلند مخاطب ہوئے"ارے بھابھی جان، " سارا زور لفظ جان پہ لگا دیا تھا گویا۔ " کہیں جا رہی ہیں کچھ ضروری کام تو عرض کیجیئے ہم جو موجود ہیں آپ کہاں خود سنبھالتی پھریں گی" آنکھوں میں خباثت کا رنگ گہرا ہی ہوتا جا رہا تھا۔
"نہیں بھائی صاحب، آپکی مہربانی، بس کچھ ضروری کام ہے " اس نے سنجیدگی سے جواب دیا اور آگے کو بڑھ گئی۔ کرامت صاحب کی نگاہ کافی دیر تک اس کے برقعے میں الجھی رہی اور لبوں پہ مسکراہٹ رینگنے لگی۔
مین روڈ پر نکلتے ہی اسے لگا جیسے ہر کوئی مضحکہ خیز نگاہوں سے اسے اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے اور یہ کوئی ایک آج کے دن کی بات نہیں تھی ہر بار باہر نکلتے ہوئے اسے انہی سب چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔  اور وجہ تھی اس کا برقعہ !
اس ماڈرن ایریے میں رہتے ہوئے جہاں دوپٹہ تو دور کی بات، مکمل لباس بھی کم ہی خواتین پہ نظر آتا تھا اسکا برقعہ پہننا واقعی عجیب تھا  ۔ کھلے ہوئے دسترخوان پہ ان گنت پکوانوں کے درمیان رکھی ہوئی وہ ایسی پلیٹ لگتی جسے اوپر سے ڈھانپ دیا گیا ہو ، اور ہر کوئی سارا دسترخوان چھوڑ کر بس اس پلیٹ کے تجسس میں پڑا ہو۔ لیکن سب کا حال یہ تھا کہ جیسے مکھیاں چاہ کر بھی اس ڈھانپی ہوئی پلیٹ کو گندا نہیں کر سکتی تھیں اسی طرح معاشرے کی خباثت بھری نگاہیں چاہ کر بھی اس برقعہ پوش کو میلا نہیں کر پا رہی تھیں۔
مارکیٹ پہنچ کر وہ ایک گروسری سٹور میں داخل ہوئی اور سودے کی لسٹ نکال کر اشیاء کا جائزہ لینے لگی,
خریدوفروخت کے بعد وہ باہر کی جانب پلٹی ہی تھی کہ اچانک اس کو اپنے پیچھے آواز آئی،
"جاہل عورت"
اس نے آواز کی سمت مڑ کر دیکھا تو سامنے بلیو جینز پہ ریڈ شارٹ ٹاپ پہنے سلیولیس بازوؤں کے ساتھ ایک فیشن ایبل لڑکی کھڑی دکھائی دی جو کافی غصے سے اسے گھور رہی تھی۔ اس نے سوالیہ نظریں لڑکی کی جانب اٹھائیں تو وہ لڑکی دوبارہ مخاطب ہوئی " تم جیسی جاہل عورتوں کی وجہ سے ہم عورتوں کو ڈی گریڈ کیا جاتا ہے صرف تم جیسی عورتیں ہر جگہ ہماری ناک کٹواتی پھرتی ہیں ۔ہمیں برابری کے لیول پہ کھڑا نہیں کیا جاتا۔ ہمیں کمزور سمجھا جاتا ہے۔ آخر یہ چھ گز کا ٹینٹ اوڑھ کر تم کیا ثابت کرنا چاہتی ہو؟ ہوش میں آؤ دنیا کے ساتھ چلنا سیکھو دنیا اتنی ماڈرن ہو چکی ہے کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور تم جیسی جاہل عورتیں ابھی تک اس تنبو سے ہی باہر نہیں آ سکیں۔ "
اس نے سکون سے اسکی پوری بات سنی ،پھر دو قدم آگے بڑھی اور اطمینان سے گویا ہوئی۔
"زمانہ جاہلیت میں جب اسلام نہیں تھا تو لوگ بےلباس تھے پھر اسلام آیا لوگوں کو سمجھ بوجھ دی اور لوگ اپنے آپ کو ڈھانپنے لگے ۔یوں رفتہ رفتہ جاہلیت ختم ہوئی اور لوگ ماڈرن ہونے لگے۔
اب اگلی بات کا فیصلہ آپ خود کر لیں کہ زمانہ جاہلیت میں ننگے ہو کر  جنگلوں میں گھومنے اور زمانہ جدید میں ننگے ہو کر سڑکوں ،پارکوں اور ہوٹلوں میں گھومنے میں کیا فرق ہے؟
میرے خیال میں تو کوئی فرق نہیں،
میں اگر زمانہ جاہلیت کی ہوتی تو ضرور بے لباس گھومتی لیکن میں پردہ کرتی ہوں اور اپنے آپ کو ڈھانپ کے رکھتی ہوں کیونہ، میں حقیقتاً ایک ماڈرن لڑکی ہوں ! "
یہ کہہ کر وہ پروقار انداز میں واپسی کی طرف مڑی تو سامنے سے آتے دو مردوں نے ایک طرف ہو کر اسکو گزرنے کا راستہ دیا ۔تشکر کے جذبات سے اس نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور ایک مطمئن سا آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر برقعے میں جذب ہو گیا !

No comments:

Post a Comment